فقہ

ج- طہارت کے معنی ہیں حدث کو دور کرنے اور نجاست سے پاکی حاصل کرنے کے۔
نجاست سے پاکی کا مطلب یہ ہے کہ جسم، کپڑے یا نماز پڑھنے کی جگہ میں اگر کوئی نجاست ہو تو مسلم اسے دور کرے۔
اور حدث کو دور کرنے سے وہ طہارت مراد ہے جو وضو یا غسل سے حاصل ہوتی ہے، اور اس طہارت کے لیے پاک پانی کا استعمال کرنا ہے یا اگر کسی کو پانی نہ ملے یا پانی کے استعمال میں دشواری ہو تو وہ تیمم کر سکتا ہے۔

ج- پانی سے دھو کر۔
لیکن اگر کسی چیز میں کتا منہ ڈال دے تو اسے سات بار دھونا ہے، پہلی بار مٹی سے۔

ج- نبئ اکرم ﷺ کا ارشاد ہے : ”جب مسلمان بندہ یا مومن (یہ شک ہے راوی کا) وضو کرتا ہے اور منہ دھوتا ہے تو اس کے منہ سے وہ سب گناہ (صغیرہ) نکل جاتے ہیں جو اس نے آنکھوں سے کئے پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ (جو منہ سے گرتا ہے یہ بھی شک ہے راوی کا) پھر جب ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ہاتھوں میں سے ہر ایک گناہ جو ہاتھ سے کیا تھا پانی کے ساتھ یاپانی کے آخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتا ہے، پھر جب پاؤں دھوتا ہے تو ہر ایک گناہ جس کو اس نے پاؤں سے چل کر کیا تھا پانی کے ساتھ یاپانی کے آخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتا ہے یہاں تک کہ وہ سارے گناہوں سے پاک صاف ہو کر نکلتا ہے۔“ (صحیح مسلم)

ج- ہتھیلیوں کو تین بار دھوئیں۔
اور تین مرتبہ کلی کریں اور ناک میں پانی ڈال کر ناک صاف کریں۔
کلی کرنا:
یعنی منہ میں پانی ڈال کر اسے گھمانا اور باہر تھوکنا۔
ناک میں پانی ڈالنے کا طریقہ یہ ہے کہ داہنے ہاتھ میں پانی لے کر پانی کو ناک کے اندر کھینچیں۔
اور ناک صاف کرنے سے مراد ہے ناک کے اندر پانی کھینچنے کے بعد اسے ناک سے بائیں ہاتھ سے باہر نکالنا۔
پھرچہرے کو تین بار دھونا۔
پھر کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں کو تین بار دھونا۔
پھر سر کا اور کانوں کا مسح کرنا، سر کے مسح کے دوران ہاتھ کو سر کے آگے سے پیچھے اور پھر پیچھے سے آگے لانا ہے۔
پھر ٹخنوں کے ساتھ دونوں پیروں کو تین بار دھونا۔
یہ وضو کا اکمل طریقہ ہے جو بخاری اور مسلم کی کئی حدیثوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، عثمان اور عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہما وغیرہ ان احادیث کے راوی ہیں۔ اور بخاری وغیرہ میں یہ بھی ثابت ہے کہ "آپ نے اعضاۓ وضو کو ایک ایک بار دھویا، اور دو دو مرتبہ دھویا"۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ وضوء کے ہر عضو کو ایک ایک بار یا دو دو بار بھى دھو سکتا ہے۔

وضو کے فرائض وہ ہیں جن میں سے کوئی ایک فریضہ بھی اگر چھوڑ دیا جاۓ تو وضو صحیح نہیں ہوتا۔
1- چہرے کا دھونا‘ کلی اور ناک میں پانی ڈالنا بھی اسی میں شامل ہے۔
2- دونوں ہاتھوں کو کہنیوں کے ساتھ دھونا۔
3- سر کا مسح کرنا، اور کان اسی میں شامل ہیں۔
4- دونوں پاؤں کو ٹخنوں کے ساتھ دھونا۔
5- ترتیب، کہ پہلے چہرا دھوۓ پھر دونوں ہاتھ پھر سر کا مسح کرے پھر دونوں پیروں کو دھوۓ۔
6- تسلسل: یعنی دو اعضا کے دھونے کے بیچ اتنی تاخیر نہ ہو کہ پہلا سوکھ جاۓ۔
جیسے آدھا وضو کرکے رک جاۓ اور پھر کسی دوسرے وقت مکمل کرے تو یہ وضو صحیح نہیں ہوگا۔

ج- وضو کی سنتیں: اس سے مقصود وہ کام ہیں کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو مزید اجر وثواب کا مستحق ہوگا اور اگر ترک کردے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور اس کا وضو صحیح ہوگا۔
1- (شروع میں) بسم اللہ کہنا۔
2- مسواک کرنا۔
3- ہتھیلیوں کو دھونا۔
4- انگلیوں کا خلال کرنا۔
5- دوسری اور تیسری بار اعضاۓ وضو کو دھونا۔
6- دائیں طرف سے شروع کرنا۔
7- وضو کے بعد یہ دعا کہنا: «أشْهَدُ أنْ لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، وأشهدُ أنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ». (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور میں اس بات کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں۔)
8- وضو کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا۔

ج- پیشاب، پاخانہ یا ہوا جو اگلی یا پچھلی شرمگاہ سے نکلے۔
نیند، پاگل پن بے ہوشی۔
اونٹ کا گوشت کھانا۔
ہاتھ سے بلا کسی آڑ کے اگلی یا پچھلی شرمگاہ کو چھونا۔

ج- تیمم: پانی نہ ملنے یا اس کے استعمال میں دشواری ہونے پر مٹی یا زمین کی سطح کی چیزوں (پتھر اور ریت وغیرہ) کا استعمال کرنا۔

ہتھیلیوں کو ایک بار مٹی پر مار کر چہرے اور ہتھیلیوں کے اوپری حصوں کا ایک مرتبہ مسح کرنا۔

ج- تمام نواقض وضو۔
اور جب پانی مل جاۓ (تب بھی تیمم ٹوٹ جاتا ہے)۔

ج- خف: چمڑے کے موزے۔
ج- جورب: چمڑے کے علاوہ دیگر چیزوں کے موزے۔
اور ان پر دھونے کی جگہ مسح کرنا درست ہے۔

ج- بندوں کے لیے تخفیف اور آسانی بالخصوص سردی اور سفر کی حالت میں۔

ج- 1- موزے وضو کے بعد پہنے۔
2- موزے پاک ہوں، ناپاک موزوں پر مسح درست نہیں ہے۔
3- موزے سے پیر کا وہ حصہ ڈھک جاۓ جسے وضو کے دوران دھونا فرض ہے۔
4- مسح متعینہ مدت کے اندر کیا جاۓ جو کہ ایک دن اور ایک رات ہے مقیم کے لیے، اور تین دن اور تین راتیں ہیں مسافر کے لیے ہے۔

موزوں پر مسح کا طریقہ یہ ہے کہ: ہاتھوں کی بھیگی اور کھلی ہوئی انگلیوں سے پیروں کی انگلیوں سے پنڈلیوں تک کا ایکا بار مسح کرے، دہرائے نہیں، دائیں پیر کا دائیں ہاتھ سے اور بائیں پیر کا بائیں ہاتھ سے۔

1- مسح کی متعینہ مدت کا گزر جانا، اس لیے مسح کی متعینہ مدت کے گزر جانے کے بعد موزوں پر مسح کرنا جائز نہیں, اور موزوں پر مسح کى کى شرعى مدت ایک دن اور ایک رات ہے مقیم کے لیے، اور تین دن اور تین راتیں ہیں مسافر کے لیے ہے۔
2- دونوں موزوں کو یا کسی ایک موزے کو اتار لینا، اگر کوئی شخص مسح کرنے کے بعد موزے یا ان میں سے کوئی ایک اتار دے تو ان پر مسح باطل ہے۔

ج- نماز: مخصوص اقوال اور اعمال سے اللہ تعالی کی عبادت کرنے کا نام ہے، جو تکبیر سے شروع اور سلام پر ختم ہوتی ہے۔

ج- نماز ہر مسلمان پر فرض ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
بیشک نماز ایمان والوں پر پابندی وقت کے ساتھ فرض ہے۔ [سورۂ نساء: 103]

ج- نماز چھوڑنا کفر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”ہمارے اور ان (کافروں) کے درمیان نماز کا فرق ہے تو جس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا“
احمد، ترمذی وغیرہ۔

ج- رات اور دن میں پانچ نمازیں ہیں۔ فجر: دو رکعت، ظہر: چار رکعت، عصر: چار رکعت، مغرب: تین رکعت اور عشا: چار رکعت۔

ج- 1- اسلام، لہذا کافر کی نماز درست نہ ہوگی۔
2- عقل؛ پاگل کی نماز نہیں ہوگی۔
3- تمییز؛ غیر تمیزدارچھوٹے بچہ کی نماز صحیح نہیں ہوگی۔
4- نیت۔
5- نماز کا وقت ہو جانا۔
6- ناپاکی دور کرکے طہارت حاصل کرنا۔
7- نجاست سے پاکی۔
8- شرم گاہ کی ستر پوشی۔
9۔ قبلہ کی جانب منہ کرنا۔

ج- نماز کے ارکان چودہ ہیں:
1- فرض نماز میں قیام (کھڑے ہو کر نماز پڑھنا) اگر استطاعت ہو۔
2- تکبیر تحریمہ یعنی اللہ اکبر کہنا۔
سورۂ فاتحہ پڑھنا۔
رکوع کرنا۔ اور اس دوران پیٹھ سیدھی اور سر کو پیٹھ کے برابر رکھے گا۔
رکوع سے سر اٹھانا۔
سیدھے کھڑا ہونا۔
سجدہ کرنا اور پیشانی، ناک، ہتھیلی، گھٹنے اور قدموں کی انگلیوں کے سروں کو ڈھنگ سے سجدہ کی جگہ پہ رکھنا۔
سجدہ سے سر اٹھانا۔
دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا۔
اور سنت یہ ہے کہ بائیں پیر کو بچھا کر اس پر بیٹھے اور دائیں پیر کو کھڑا اور قبلہ رخ رکھے۔
اطمینان یعنی ہر فعلی رکن کو پورے سکون سے ادا کرنا۔
آخری تشہد۔
اس کے لیے بیٹھنا۔
دو مرتبہ ''السلام علیکم ورحمۃ اللہ'' کہنا۔
ارکان کو ترتیب سے انجام دینا، پس اگر جان بوجھ کر رکوع سے قبل سجدہ کرے تو نماز باطل ہو جاۓ گی اور اگر غلطی سے ایسا ہو جاۓ تو اسے واپس جا کر رکوع کرنا ہو گا پھر سجدہ کرے گا۔

ج- نماز کے واجبات آٹھ ہیں:
1- تکبیر تحریمہ کے سوا باقی تکبیریں۔
2- امام اور منفرد کا ''سمع اللہ لمن حمدہ'' کہنا۔
3- «ربنا ولك الحمد» کہنا۔
4- رکوع میں ایک بار «سبحان ربي العظيم» کہنا۔
5- سجدہ میں ایک بار «سبحان ربي الاعلی» کہنا۔
6- دونوں سجدوں کے درمیان «رب اغفر لي» کہنا۔
7- پہلا تشہد۔
8- پہلے تشہد کے لیے بیٹھنا۔

ج- گیارہ ہیں:
1- تکبیر تحریمہ کے بعد دعاۓ استفتاح پڑھنا، جیسے: "سبحانك اللهم وبحمدك، وتبارك اسمك، وتَعَالَىٰ جدك، ولا إله غيرك"۔
2- اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھنا۔
3- بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا۔
4- آمین کہنا۔
5- سورۂ فاتحۂ کے بعد کوئی سورت پڑھنا۔
6- امام کا جہری تلاوت کرنا۔
7- ''ربنا ولک الحمد'' کہنے کے بعد "ملء السَّمٰوات، وملء الأرض، وملء ما شئت من شيء بعد" کہنا۔
8- رکوع میں ایک مرتبہ سے زیادہ تسبیح پڑھنا۔ یعنی دوسری اور تیسری تسبیح یا اس سے بھی زیادہ۔
9- سجدہ میں ایک مرتبہ سے زیادہ تسبیح پڑھنا۔
10- دونوں سجدوں کے درمیان ایک مرتبہ سے زیادہ ''رب اغفر لی'' کہنا۔
11- آخری تشہد میں آل نبی پر درود بھیجنا، آپ کے اور آپ کى آل کے لیے برکت کی دعا کرنا اور اس کے بعد کی دعائیں۔
فعلی سنتیں، اور انہیں ہیئات (ہیئت وکیفیت) کہا جاتا ہے:
1- رفع الیدین (ہاتھوں کو اٹھانا) کرنا تکبیر تحریمہ کے ساتھ۔
2- اور رکوع کرتے وقت۔
3- رکوع سے سر اٹھاتے وقت۔
4- پھر ہاتھوں کا نیچے کرنا۔
75- دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا۔
6- سجدہ کی جگہ کو دیکھتے رہنا۔
7- قیام (کھڑے ہونے) کے دوران قدموں کے بیچ فاصلہ رکھنا۔
8- رکوع کرتے وقت کھلی انگلیوں کے ساتھ دونوں ہاتھوں سے گھٹنوں کو پکڑنا، پیٹھ سیدھی رکھنا اور سر کو اس کے برابر رکھنا۔
9- اعضاۓ سجدہ کو اچھی طرح زمین پر رکھنا اور بلا کسی حائل کے سجدہ کی جگہ کو چھونا۔
10- بازؤں کو پہلؤں سے، پیٹ کو رانوں سے اور رانوں کو پنڈلیوں سے دور رکھنا۔ اور گھٹنوں کے درمیان فاصلہ رکھنا، قدموں کو کھڑا رکھنا، پیروں کی انگلیوں کے اندرونی حصوں کو زمین پر رکھنا اور ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اس طرح رکھنا کہ انگلیاں سٹی ہوئی ہوں۔
11- دونوں سجدوں کے درمیان اور تشہد اول میں بائیں پیر کو بچھا کر اس پر بیٹھنا اور دوسرے تشہد میں تورک کرنا۔
دونوں سجدوں کے درمیان ہاتھوں کو رانوں کے اوپر اس طرح بچھانا کہ انگلیاں سٹی ہوئی ہوں۔ اور تشہد میں بھی یہی کیفیت ہوگی لیکن دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں خنصر اور بنصر کو سمیٹ کر انگوٹھے اور بڑی انگلی کا حلقہ بناۓ گا اور اللہ کا ذکر آنے پر شہادت کی انگلی سے اشارہ کرے گا۔
13- دائیں اور بائیں مڑ کر سلام پھیرنا۔

ج- (1) نماز کا کوئی رکن یا شرط ترک کرنا۔
(2) دانستہ بات کرنا۔
(3) کھانا یا پینا۔
(4) مسلسل کثرت سے حرکت کرنا۔
(5) عمدا نماز کا کوئی واجب ترک کرنا۔

ج- طریقہ نماز کا بیان:
1- اپنے پورے جسم کے ساتھ قبلہ رخ ہو کر کھڑا ہو، نہ دائیں بائیں مڑے اور نہ ادھر ادھر دیکھے۔
2- پھر دل سے اس نماز کی نیت کرے جو وہ پڑھنے والا ہو، زبان سے نہیں۔
3- پھر (اللہ اکبر) کہتے ہوۓ دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاۓ۔
4- پھر دائیں ہاتھ کو بائیں ہتھیلی پر سینہ کے اوپر رکھے۔
5- پھر یہ دعا پڑھے: ”اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنْ خَطَايَايَ كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْيَضُ مِنْ الدَّنَسِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ“
اے اللہ! میرے اور میری خطاؤں کے درمیان ایسی دوری کر دے جیسی مشرق ومغرب کے درمیان تو نے دوری کی ہے، اے اللہ! مجھے خطاؤں سے اس طرح صاف کر دے جس طرح سفید کپڑا میل سے صاف کیا جاتا ہے، اے اللہ! مجھے میری خطاؤں سے پانی، برف اور اولے سے دھو دے۔
یا یہ دعا پڑھے:
«سبحانك اللهم وبحمدك، وتبارك اسمك، وتَعَالَىٰ جدك، ولا إله غيرك» "اے اللہ! تو پاک ہے، تیرے لیے ہی تمام تعریف وتوصیف ہے، تیرا نام بابرکت ہے، تیری شان سب سے اونچی ہے اور تیرے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے۔"
6- پھر کہے گا: «أعوذ بالله من الشيطان الرجيم» میں شیطان مردود کے شر سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ 7- پھر یوں سورۂ فاتحہ پڑھے گا: ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ} اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں، جو بڑا مہربان، نہایت رحم کرنے والا ہے۔" {الْحَمْدُ للّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} " ساری تعریف اللہ کے لیے ہے، جو سارے جہاں کا رب ہے۔ {الرَّحْمـنِ الرَّحِيمِ} بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ {مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ} بدلہ کے دن کا مالک ہے۔ {إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ} ہم بس تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور بس تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں، {اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ} ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما، {صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام کیا ہے، نہ کہ ان لوگوں کا (راستہ) جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ ان کا جو گمراہ ہوئے۔ [سورۂ فاتحة:1-7]
پھر کہے گا: (آمین) یعنی اے اللہ قبول فرما۔
8- پھر جتنی ممکن ہو قرآن کی تلاوت کرے گا اور فجر کی نماز میں لمبی قرأت کرے گا۔
9- پھر رکوع کرے گا، یعنی اللہ تعالی کی تعظیم کے طور پہ اپنی پیٹھ کو جھکاۓ گا اور رکوع کرتے وقت کندھوں تک ہاتھوں کو اٹھاتے ہوۓ تکبیر کہے گا اور سنت یہ ہے کہ پیٹھ کو سیدھا رکھے، سر کو اس کے برابر رکھے اور کھلی انگلیوں کے ساتھ ہاتھوں سے گھٹنوں کو پکڑے۔
10- اور رکوع میں تین مرتبہ ''سبحان ربی العظیم'' کہے گا اور اس کے ساتھ ''سبحانك اللهم وبحمدك، اللهم اغفر لي" بھی کہے تو یہ اچھی بات ہے۔
11- پھر «سمع الله لمن حمده» کہتے ہوۓ اور دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتے ہوۓ رکوع سے سر اٹھاۓ گا اور مقتدی صرف «ربنا ولك الحمد» کہے گا۔
اور سر اٹھانے کے بعد یہ دعا کہے گا: «ربنا ولك الحمد، ملء السماوات والأرض، وملء ما شئت من شيء بعد» اے اللہ ہمارے رب! تیرے ہی لیے تعریف وتوصیف ہے آسمان بھر، زمین بھر اور ان کے علاوہ جو تو چاہے اس کی وسعت بھر۔
13- پھر ''اللہ اکبر'' کہتے ہوۓ پہلا سجدہ کرے گا اور سات اعضا پہ سجدہ کرے گا: پیشانی، ناک (یہ دونوں مل کر ایک)، ہتھیلیاں، گھٹنے اور پیروں کے کنارے، اور بازؤں کو پہلؤں سے دور رکھے گا، ہاتھوں کو زمین پر نہیں بچھاۓ گا اور انگلیوں کو قبلہ رخ رکھے گا۔
14- اور سجدہ میں تین مرتبہ ''سبحان ربی الاعلی'' کہے گا اور اس کے ساتھ ''سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي" بھی کہے تو یہ اچھی بات ہے۔
15- پھر اللہ اکبر کہتے ہوۓ سجدہ سے سر اٹھاۓ گا۔
16- پھر دونوں سجدوں کے درمیان بائیں پیر پر بیٹھے گا اور دایاں پیر کھڑا رکھے گا اور دایاں ہاتھ دائیں ران کے کنارے پر رکھ کر خنصر اور بنصر دو انگلیوں کو سمیٹ لے گا اور شہادت کی انگلی کو اٹھا کر حرکت دیتے ہوۓ دعا کرے گا اور انگوٹھے اور بڑی انگلی کا حلقہ بناۓ گا، اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران کے اوپر بچھا کر رکھے گا۔
17- اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھ کر یہ دعا پڑھے گا: «رب اغفر لي، وارحمني، واهدني، وارزقني، واجبرني، وعافني» "اے ہمارے رب! میرى مغفرت فرما دے، مجھ پر رحم کر، مجھے ہدایت دے، مجھے روزی عطا کر، اور میری ضرورت پوری کر اور مجھے عافیت دے"
18- پھر تکبیر کہتے ہوۓ دوسرے سجدہ میں جاۓ گا اور پہلے سجدہ ہی کے انداز میں یہ سجدہ مکمل کرے گا۔
19- پھر ''اللہ اکبر'' کہتے ہوۓ دوسرے سجدہ سے اٹھے گا اور دوسری رکعت بھی پہلی رکعت ہی کی طرح ادا کرے گا مگر اس میں دعاۓ استفتاح نہیں پڑھے گا۔
20- دوسری رکعت مکمل کرکے ''اللہ اکبر'' کہتے ہوۓ (سجدہ سے اٹھ کر بیٹھے گا) جیسے دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھتا ہے۔
21- اور تشہد کی یہ دعا پڑھے گا: "ساری حمد وثنا، تمام عبادتیں اور دعائیں اور تمام پاکیزہ اقوال واعمال اللہ کے لئے ہیں، اے نبی! آپ پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکت نازل ہو، سلام ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد (ﷺ) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اے اللہ! تو محمد اور آل محمد پر رحمت نازل فرما، جس طرح تو نے ابراہیم اور ان کی آل پر رحمت نازل فرمائی ہے، تو حمد و ستائش کے لائق ہے اور عظمت والا ہے، اے اللہ! تو محمد اور آل محمد پر برکت نازل فرما، جس طرح تونے ابراہیم اور ان کی آل پر برکت نازل فرمائی ہے، تو حمد و ستائش کے لائق ہے اور عظمت والا ہے۔" پھر دنیا وآخرت کی بھلائی پانے کے لیے جو دعا چاہے پڑھ سکتا ہے۔
22- پھر دائیں اور بائیں ''السلام علیکم ورحمۃ اللہ'' کہتے ہوۓ سلام پھیرے گا۔
23- اور جب نماز دو رکعت یا تین رکعت والی ہو تو پہلے تشہد میں «أشهد أن لا إله إلا الله، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله» کہہ کر رک جاۓ گا۔
24- پھر ''اللہ اکبر'' کہتے ہوۓ ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے ہوۓ کھڑا ہو گا۔
25- پھر باقی نماز دوسری رکعت کی صفت پر ادا کرے گا لیکن صرف سورۂ فاتحہ پڑھے گا۔
26- آخری تشہد میں تورک کرے گا چنانچہ دائیں پیر کو کھڑا رکھے گا اور بائیں پیر کو دائیں پنڈلی کے نیچے سے نکال کر اچھی طرح زمین پر بیٹھے گا اور پہلے تشہد ہی کی طرح ہاتھوں کو رانوں پہ رکھے گا۔
27- اور اس بیٹھک میں پورا تشہد پڑھے گا (جن کا ذکر اوپر دو رکعت والی نماز کے بیان میں گزرا)
28- پھر دائیں اور بائیں ''السلام علیکم ورحمۃ اللہ'' کہتے ہوۓ سلام پھیرے گا۔

ج- تین مرتبہ ''استغفر اللہ''۔ ’’میں اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔‘‘
- «اللّهُـمَّ أَنْـتَ السَّلامُ، وَمِـنْكَ السَّلام، تَبارَكْتَ يا ذا الجَـلالِ وَالإِكْـرام».’’اے اللہ ! تو ہی سلامتی والا ہے اور تیری ہی طرف سے سلامتی ہے، تو بہت با برکت ہے اے بڑی شان اور عزت والے!۔‘‘ [90]
- «لا إلهَ إلاّ اللّهُ وحدَهُ لا شريكَ لهُ، لهُ المُـلْكُ ولهُ الحَمْد، وهوَ على كلّ شَيءٍ قَدير، اللّهُـمَّ لا مانِعَ لِما أَعْطَـيْت، وَلا مُعْطِـيَ لِما مَنَـعْت، وَلا يَنْفَـعُ ذا الجَـدِّ مِنْـكَ الجَـد».
’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہت ہے اور اسی کے لیے سب تعریف ہے، اور وہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے۔ اے اللہ ! اس چیز کو کوئی روکنے والا نہیں جو تو عطا کرے اور جس چیز کو تو روک لے، اس کو کوئی دینے والا نہیں اور کسی صاحبِ حیثیت کو اس کی حیثیت تیرے ہاں فائدہ نہیں دے سکتی۔‘‘
- «لا إلهَ إلاّ الله، وحدَهُ لا شريكَ لهُ، لهُ الملكُ ولهُ الحَمد، وهوَ على كلّ شيءٍ قدير، لا حَـوْلَ وَلا قـوَّةَ إِلاّ بِاللهِ، لا إلهَ إلاّ الله، وَلا نَعْـبُـدُ إِلاّ إيّـاه، لَهُ النِّعْـمَةُ وَلَهُ الفَضْل وَلَهُ الثَّـناءُ الحَـسَن، لا إلهَ إلاّ الله مخْلِصـينَ لَـهُ الدِّينَ وَلَوْ كَـرِهَ الكـافِرون».
’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے،اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہت ہے اور اسی کے لیے سب تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے، برائی سے بچنے کی ہمت ہے نہ نیکی کرنے کی طاقت مگر اللہ کی توفیق ہی سے، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور ہم صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں،اسی کی طرف سے نعمت ہے اور اسی کى طرف سے فضل ہے اور اسی کے لیے بہترین ثنا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، ہم اسی کے لیے بندگی کو خالص کرنے والے ہیں، خواہ کافر (اسے) ناگوار سمجھیں۔‘‘.
تینتیس بار «سُـبْحانَ اللهِ»۔
تینتیس بار «الحمد اللهِ»۔
تینتیس بار « اللهِ اکبر»۔
پھر یہ دعا کہہ کر سو کی گنتی پوری کریں گے: «لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، وهو على كل شيء قدير».
"اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، وہ اکیلا ہے،اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہت ہے اور اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں۔ وہی زندہ کرتا ہے اور وہی موت دیتا ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔"
فجر اور مغرب کے بعد سورۂ اخلاص، سورۂ فلق اور سورۂ ناس تین مرتبہ اور دیگر نمازوں کے بعد ایک مرتبہ پڑھیں گے۔
اور ایک مرتبہ آیۃ الکرسی پڑھیں گے۔

ج- فجر سے پہلے دو رکعتیں۔
ظہر سے پہلے چار رکعتیں۔
ظہر کے بعد دو رکعتیں۔
مغرب کے بعد دو رکعتیں۔
عشا کے بعد دو رکعتیں۔
ان کی فضیلت کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
'جو دن اور رات میں بارہ رکعت نفل پڑھے گا اللہ تعالی اس کے لیے جنت میں ایک گھر بناۓ گا''۔ (مسلم اور احمد وغیرہ نے اسے روایت کیا ہے)

ج- جمعہ کا دن, نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے : 'تمہارے افضل ترین دنوں میں سے جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی، اسی دن ان کی موت ہوئی، اسی دن صور پھونکا جاۓ گا اور اسی دن لوگ بے ہوش ہوں گے، پس تم اس دن مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجا کرو کیوں کہ تمہارا درود میرے پاس پہنچایا جاۓ گا''۔ صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول، ہمارا درود آپ کے پاس کیسے پہنچایا جاۓ گا جبکہ آپ کا جسم مٹی میں شامل ہو چکا ہوگا؟ آپ نے فرمایا: 'اللہ تعالی نے انبیا کے جسموں کو مٹی کے اوپر حرام کر دیا ہے''۔ ابوداؤد اور احمد نے اس کی روایت کی ہے۔

ج- نماز جمعہ ہر مسلم، عاقل، بالغ اور مقیم شخص پر فرض ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(اے وہ لوگو جو ایمان لاۓ ہو، جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جاۓ تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو، یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو)۔ [سورۂ جمعہ: 9]

ج- نماز جمعہ دو رکعت ہے، جس میں امام جہری تلاوت کرتا ہے اور ان دو رکعت سے پہلے دو معروف خطبے ہوتے ہیں۔

بغیر کسی شرعی عذر کے جائز نہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے: ”جو شخص سستی وکاہلی میں تین جمعہ چھوڑ دے اللہ تعالی اس کے دل پر مہر کر دیتا ہے“۔ ابوداود وغیرہ نے اس کی روایت کی ہے۔

ج-
1- غسل کرنا۔
2- خوشبو لگانا۔
3- سب سے اچھا لباس زیب تن کرنا۔
4- مسجد جلدی پہنچنا۔
5- نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت درود بھیجنا۔
٦- سورۂ کہف کی تلاوت کرنا۔
7- پیدل مسجد جانا۔
8- دعا کى قبولیت کے وقت کی تلاش میں لگنا۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: 'باجماعت نماز منفرد (اکیلے ) کی نماز سے ستائیس (27) درجے زیادہ افضل ہے''۔ [صحیح مسلم]

یہاں خشوع سے مراد: نماز کے اندر دل کى یکسوئی اور اعضاء وجوارح کے سکون واطمینان کا نام ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (یقینا ایمان والوں نے فلاح حاصل کرلی۔ جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں)۔ [سورۂ مؤمنون: 1-2]۔

ج- زکوۃ مخصوص وقت میں مخصوص مال میں مخصوص لوگوں کے واجب حق کا نام ہے۔
زکوۃ دین اسلام کا ایک اہم رکن ہے، یہ ایک واجب صدقہ ہے جو مالداروں سے لے کر غریبوں کو دیا جاتا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"اور زکوۃ دو۔" [سورۂ بقرۃ : 43]

ج- زکوۃ کے سوا ہر صدقہ، جیسے کسی بھی وقت خیر کی راہوں میں کچھ صدقہ کرنا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو)۔ [سورۂ بقرۃ : 195]

صیام (روزہ): طلوع فجر سے غروب آفتاب تک نیت کے ساتھ مفطرات (جن چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاۓ) سے باز رہ کر اللہ کى عبادت کرنا۔ اور اس کی دو قسمیں ہیں:
واجب صیام: جیسے رمضان کے روزے جو کہ دین اسلام کا ایک رکن ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ والے ہوجاؤ۔} [سورۃ البقرۃ : 183]
مسنون صیام: جیسے سوموار، جمعرات اور ہر مہینے میں تین دن کے روزے۔ اور ہر مہینے کے افضل ترین روزے ایام بیض یعنی ہر چاند کی 13، 14 اور 15 تاریخ کے روزے ہیں۔

4- جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ایمان اور اجر کی نیت کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے گا اللہ تعالیٰ اس کے گزشتہ گناہوں کو بخش دے گا۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم۔

ج- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 'جو اللہ تعالی کی راہ میں ایک دن کا بھی روزہ رکھتا ہے اللہ تعالی اس ایک دن کے روزے کى بدولت اس کے چہرے کو جہنم کی آگ سے ستر سال کی مسافت کے بقدر دور کر دیتا ہے''۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم۔
مذکورہ حدیث میں وارد لفظ «سبعين خريفًا» کا معنى 70 سال ہے۔

ج- 1-دانستہ کھانا پینا۔
2- بالقصد قے کرنا۔
3- مرتد ہو جانا۔

ج- 1- افطار میں جلدی کرنا۔
2- سحری کھانا اور اس میں تاخیر کرنا۔
3- بکثرت نیک اعمال اور عبادتیں انجام دینا۔
4- کوئی برا بھلا کہے تو یہ کہنا کہ میں روزے سے ہوں۔
5- افطار کے وقت دعا کرنا۔
6- گیلى کھجور یا سوکھی کھجور سے افطار کرنا لیکن اگر یہ میسر نہ ہو تو پانی سے روزہ کھولنا۔

ج- حج: مخصوص وقت میں عبادت کی غرض سے مخصوص اعمال انجام دینے کے لیے بیت اللہ کا قصد کرنا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {اور الله کا لوگوں پر یہ حق ہے کہ جو بیت اللہ تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو، وہ اس کا حج کرے، اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے، تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔} [سورۂ آل عمران: 97]

ج- 1- احرام باندھنا۔
2- وقوفِ عرفہ۔
3- طواف افاضہ۔
4- صفا ومروہ کے مابین سعی کرنا۔

4- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوۓ سنا: ’’جس شخص نے حج کیا اور اس نے (اس دوران) جماع اور مقدمات جماع كا ارتکاب نہیں کیا اور نہ گناہ کا کام کیا تو وہ (حج کے بعد گناہوں سے پاک ہو کر اپنے گھر اس طرح) لوٹتا ہے جیسے اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا‘‘۔ بخاری وغیرہ نے اسے روایت کیا ہے۔
(اس دن کی طرح جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا) کا مطلب ہے: گناہوں سے پاک ہو کر۔

ج- عمرہ: کسی بھی وقت عبادت کی غرض سے مخصوص اعمال انجام دینے کے لیے بیت اللہ کا قصد کرنا۔

ج- 1- احرام باندھنا۔
2- طواف کرنا۔
3- صفااور مروہ کے مابین سعی کرنا۔

ج- جہاد: اسلام کی نشر واشاعت اور اسلام اور مسلمانوں کے دفاع کے لیے ہر طرح کی کوشش اور محنت کرنا یا اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں سے جنگ کرنا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (اور راہ الہی میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو، یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم میں علم ہو)۔ [سورۂ توبہ: 41]