متنوعات

ج-
1- واجب۔
2- مستحب۔
3- محرم۔
4- مکروہ۔
5- مباح۔

ج-
1- واجب: جیسے پانچ وقت کی نمازیں، رمضان کے روزے اور والدین کے ساتھ حسن سلوک۔
- واجب کے کرنے والے کو ثواب ملے گا اور اور چھوڑنے والے کو سزا۔
2- مستحب: جیسے نماز کی سنتیں، تہجد کی نماز، کھانا کھلانا اور سلام کرنا۔ اور اسے سنت اور مندوب بھی کہتے ہیں۔
- اس کے کرنے والے کو ثواب ملے گا اور چھوڑنے والے کو سزا نہیں ملے گی۔
تنبیہ:

ایک مسلمان کی یہ صفت ہونی چاہیے کہ جب کسی سنت کا علم ہو تو جلد اس پر عمل کرے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرے۔
3- محرم: جیسے شراب پینا، والدین کی نافرمانی اور قرابت داروں کے ساتھ قطع تعلقی۔
محرم سے بچنے والے کو ثواب ملے گا اور کرنے والے کو سزا ملے گی۔
4- مکروہ: جیسے بائیں ہاتھ سے لین دین اور نماز کی حالت میں کپڑا سمیٹ کر رکھنا۔
مکروہ سے اجتناب کرنے والے کو اجر ملے گا اور کرنے والے کو سزا دی جاۓ گی۔
5- مباح: جیسے سیب کھانا اور چاۓ پینا اور اسے جائز اور حلال بھی کہا جاتا ہے۔
نہ اس سے اجتناب کرنے والے کو اجر ملے گا اور نہ کرنے والے کو سزا دی جاۓ گی۔

ج- تمام قسم کے خرید وفروخت اور معاملات کے بارے میں قاعدہ یہ ہے کہ سب حلال ہیں سواۓ چند قسموں کے جنہیں اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’تجارت کو اللہ نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام‘‘۔ [سورۂ بقرۃ : ٢٧٥]

ج-
1- دھوکہ دینا، جس میں سامان کی کسی خرابی کو چھپانا بھی شامل ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک غلہ کے ڈھیر کے پاس آۓ، آپ نے اس میں ہاتھ ڈالا تو آپ کی انگلیاں تر ہو گئیں، آپ نے دریافت کیا: "یہ کیا ہے؟" غلہ والے نے جواب دیا: اللہ کے رسول، بارش میں بھیگ گیا تھا،آپ نے فرمایا: "تو پھر اسے اوپر کیوں نہیں رکھا کہ لوگ دیکھ سکتے؟ جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں"۔ [صحیح مسلم]
2- سود: جیسے کہ میں کسی سے بطور ادھار ہزار روپیے لوں اس شرط پر کہ اسے دو ہزار لوٹاؤں۔
یہ زائد رقم ہی سود ہے جو کہ حرام ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’تجارت کو اللہ نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام‘‘۔ [سورۃ البقرۃ : ٢٧٥]
3- کسی چیز کا مجہول ہونا اور اس میں دھوکے کا امکان ہونا: جیسے میں آپ کو بکری کے تھن میں موجود دودھ بیچوں یا پانی کے اندر موجود مچھلیاں بیچوں۔
حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجہول بیع سے منع فرمایا ہے۔ [صحیح مسلم]

ج- 1- اسلام کی نعمت کہ میں کافر نہیں۔
2- سنت کی نعمت کہ میں بدعتی نہیں ہوں۔
3- صحت وعافیت کی نعمت کہ آنکھ، کان پیر سب سلامت ہیں۔
4- کھانے، پینے اور لباس کی نعمت۔
اور ایسی ہی اللہ تعالی کی ہم پر بے شمار نعمتیں ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(اگر تم اللہ تعالی کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو تم اسے شمار نہیں کر سکتے۔ بے شک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے)۔ [سورۂ نحل: 18]

ج- نعمتوں کے سلسلہ میں واجب یہ ہے کہ ان کا شکر ادا کرتے ہوۓ اللہ تعالی کی حمد وثنا بیان کریں اور یہ اقرار کریں کہ فضل صرف اسی کا ہے اور ان نعمتوں کے ذریعہ اس کی رضا جوئی کریں نافرمانی نہیں۔

ج- عید الفطر اور عید الاضحی۔
جیسا کہ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لاۓ تو دیکھا کہ اہل مدینہ کے دو خاص دن ہیں جن میں وہ خوشیاں مناتے ہیں۔ تو آپ نے دریافت کیا: (یہ دو دن کیسے ہیں؟) تو وہ بولے: کہ زمانۂ جاہلیت میں ہم ان دونوں دنوں میں کھیل مستى کیا کرتے تھے، تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی نے تمہیں ان کے بدلہ ان سے بہتر دو دن دیے ہیں: عید الاضحی اور عید الفطر)۔ اسے ابوداود نے روایت کیا ہے۔
اور ان کے سوا دیگر عیدیں بدعتوں میں شامل ہیں۔

ج- نگاہ نیچی رکھنا، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ((قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ)) ”مومنین سے کہو کہ وہ اپنی نگاہیں جھکائے رکھیں"۔ [سورۂ نور: ٣٠]

1- نفس امارہ (برائی پر آمادہ کرنے والا نفس): اس نفس کی خواہشات کی اتباع کرتے ہوۓ انسان گناہوں میں واقع ہوتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: (بے شک نفس تو برائی پر ابھارنے والا ہی ہے، مگر یہ کہ میرا پروردگار ہی رحم کرے، یقینا میرا رب بڑى م کرنے مغمفرت والا نہایت رحم والا ہے)۔ [سورۂ يوسف: 53] 2: شیطان: یہ ابن آدم کا دشمن ہے اور اس کا مقصد ہی انسان کو گمراہ کرنا، اس کے دل میں برائی کا وسوسہ ڈالنا اور بالآخر اسے جہنم تک پہونچادینا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: (اور شیطان کے قدم بقدم مت چلو، بے شک وہ تمہارا صریح دشمن ہے)۔ [سورۃ البقرۃ : ١٦٨] 3- برے لوگ: جو برائی پر ابھارتے ہیں اور بھلائی سے روکتے ہیں۔ فرمان باری تعالی ہے: (اس دن گہرے دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے سواۓ پرہیز گاروں کے)۔ (سورۂ زخرف: 67)

ج- توبہ: اللہ تعالی کی نافرمانی سے پلٹ کر اس کی اطاعت کی طرف لوٹنے کا نام ہے، اللہ تعالی نے فرمایا: "ہاں بے شک میں انہیں بخش دینے واﻻ ہوں جو توبہ کریں ایمان ﻻئیں نیک عمل کریں اور راه راست پر بھی رہیں". [سورۂ طہ: ٨٢]

ج- 1- گناہ چھوڑ دینا۔
2- ہوچکے پر نادم ہونا۔
3- اس گناہ کے دو بارہ نہ کرنے کا عزم کرنا۔
4- لوگوں کے حقوق انہیں واپس کرنا اور ظلم سے پاک ہونا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جاۓ یا کوئي گناہ کر بیٹھیں تو فورا اللہ کا ذکر اور گناہوں کے لیے استغفار کرتے ہیں، فی الواقع اللہ تعالی کے سوا اور کون گناہوں کى مغفرت کرسکتا ہے؟ اور وہ لوگ با وجود علم کے کسی برے کام پر اڑ نہیں جاتے)۔ [سورۂ آل عمران: ١٣٥]

ج- اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ فرشتوں میں اپنے نبی کی مدح وستائش کرے۔

ج- اس کے معنی ہیں اللہ تعالی کو ہر برائی اور کمی سے پاک تسلیم کرنے کے۔

ج- اللہ تعالی کی تعریف کرنا اور اسے تمام صفات کمال سے موصوف کرنا۔

ج- اللہ تعالی ہر چیز سے بڑا اور برتر ہے۔

ج- بندہ ایک حالت سے دوسری حالت پہ اپنى طاقت کى بدولت نہیں پہنچ سکتا اگر اللہ تعالی کی مدد نہ ہو۔

ج- بندے کا اپنے رب سے یہ گزارش کرنا کہ وہ اس کے گناہوں کو مٹا دے اور اس کے عیوب کو چھپا لے۔